یورپی ملک ہنگری کی جانب سے کروئیشیا سے متصل سرحد بند کیے جانے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین سلووینیا پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
سنیچر کو ہنگری کی جانب سے سرحد بند کرنے کے بعد سلووینیا کے وزیرِاعظم میرو سیرار نے ان پناہ گزینوں کو سنبھالنے کے معاملے میں فوج کو پولیس کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔
سنیچر کو کروئیشیا سے 27 سو پناہ گزین سلووینیا میں داخل ہوئے اور توقع کی جا رہی کہ اس سے زیادہ تعداد میں سنیچر اور اتوار کر درمیانی شب کو سلووینیا میں داخل ہوں گے۔
سلووینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ سکتی ہے۔
سنیچر کو پناہ گزینوں کے مسئلے پر سلووینیا کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم میرو سیرار نے کہا کہ حکومت نے پولیس کی مدد کے لیے فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں کے مطابق سلووینیا پہنچنے والے پناہ گزینوں کو پولیس نے رجسٹریشن کے بعد آسٹریا کی سرحد کے قریب واقع ایک کیمپ میں پہنچا دیا ہے۔
یورپ میں پناہ چاہنے والوں کے لیے ہنگری ایک اہم پڑاؤ رہا ہے جہاں سے بیشتر پناہ گزیں آسٹریا اور جرمنی کی طرف جاتے رہے ہیں۔
سلووینیا کی وزیرِ داخلہ ویسنا زنیدار نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس وقت تک پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت دیتا رہے گا جب تک اس کی جرمنی اور آسٹریا سے متصل سرحد کھلی ہے۔
ہنگری نے کروئیشیا سے متصل سرحد بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب یورپی رہنما اس منصوبے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے فوج بھیجنی چاہیے۔
ہنگری اس سے پہلے سربیا سے متصل اپنی سرحد کو پہلے ہی بند کر چکا ہے۔
سرحد بند کیے جانے سے پہلے جمعے تک روزانہ پانچ سے آٹھ ہزار پناہ گزین ہنگری میں داخل ہوتے رہے تھے اور یہاں رجسٹریشن کروائے بغیر وہ آسٹریا کی جانب بڑھ جاتے تھے۔
ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر زیجاتو نے سرحد بند کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا : ’ہمیں معلوم ہے کہ یہ بہترین حل نہیں ہے لیکن بہتر تو ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد اب بھی سرحد سے داخلے کے مخصوص دو مقامات پر پناہ لینے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
سرحد کی بندش کے بعد کروئیشیا کے وزیر داخلہ رانکو سٹوجک نے کہا کہ اب پناہ گزینوں کے لیے ’راستہ بدل کر اس کا رخ سلووینیا کی طرف کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں سلوینیا سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا اور یہ ’خالص کروئیشیئن منصوبہ ہے۔‘
0 comments: