تارکین وطن اب پرخطر سمندر کی بجائے سائیکلوں پر




                            

سینکڑوں تارکینِ وطن نے بحیرہ روم کے جان لیوا راستے سے اجتناب برتتے ہوئے روس سے ناروے تک سائیکل کے ذریعے سفر کر کے یورپ میں داخل ہونے کا ایک نیا راستہ تلاش کر لیا ہے۔
انھیں برفانی سرحد پیدل پار کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے تارکینِ وطن جو اپنے سفر کے آخری چند میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے سائیکل خریدتے ہیں اور اس طرح سائیکلوں کے ایک منافع بخش کاروبار کا آغاز ہوگیا ہے۔
آلتی پالتی مارکر بیٹھے فہد نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعے مجھے اس سائیکل کی لمبائی بتائی جس کے ذریعے انھوں نے ناروے کے ساتھ روس کی سرحد عبور کی۔ ان کا قد تقریباً پانچ فٹ اور دس انچ ہوگا لیکن اُنھوں نے سائیکل کی لمبائی بتانے کے لیے اپنے ہاتھ سے جہاں تک اشارہ کیا وہ ان کے گھٹنے کے برابر تھا۔
میں نے پوچھا ’آپ نے سواری کے لیے کسی بچے کی سائیکل لی تھی؟‘
اُنھوں نے جواب دیا: ’ہاں، ہاں، وہ بچوں کی ہی تھی۔‘
وہ مُسکرائے اور سگریٹ کا مزید کش لیے بغیر ہنسنا شروع کر دیا۔
ان کا تعلق الجیریا سے ہے اور وہ ٹوٹی پُھوٹی انگریزی بول لیتے ہیں۔ وہ روز بروز بڑھتے اُن پناہ گزینوں میں سے ایک ہیں جو روس کے زمینی راستے پر سفر کرتے ہیں اور پھر قطبِ شمالی کے دائرے کے قریب اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں دونوں سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔
2014 کے دوران صرف سات پناہ گزینوں نے سٹورس کاگ چوکی کی سرحد پار کی تھی۔
لیکن رواں برس اکتوبر تک 1100 افراد یہ سرحد پار کر چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق عراق سے، کچھ کا افغانستان اور کچھ کا لبنان سے ہے لیکن زیادہ تر شامی ہیں۔
انھیں سائیکل کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ روسی حکام لوگوں کو روسی سرحد پیدل پار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ناروے کے قانون کی رو سے ڈرائیور کے لیے یہ قانون توڑنے کے زمرے میں آتا ہے کہ وہ بغیر مکمل دستاویزات کے لوگوں کو اپنی گاڑی کے ذریعے ملک میں داخل کرائے۔
فہد نے مجھے بتایا کہ جب وہ مرمانسک پہنچے تو اُنھوں نے اپنی سائیکل کے لیے 200 ڈالر کی رقم کی ادائیگی کی۔ وہ یہ بتاتے ہوئے بہت خوش نظر آ رہے تھے کہ اس میں سرحد پار کرنے کے مقام پر ٹیکسی کے کرایے کی قیمت بھی شامل ہے۔
انھوں نے اسے ’پیکیج ڈیل‘ کا نام دیا۔ اُنھوں نے اپنی نئی خریدی ہوئی سائیکل پر اپنی زندگی کا ایک ہی سفر کیا جو روس اور ناروے کے درمیان غیر آباد علاقے میں 120 میٹر کے سفر پر مشتمل تھا۔
انھوں نے اس میں ٹیکسی کی سواری کی قیمت شامل نہیں کی جو 1.60 ڈالر فی میٹر لی جاتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر دنیا کے مہنگے ترین سفر میں سے ایک ہے۔ لیکن انھیں کوئی افسوس نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ یورپ میں داخل ہونے کے لیے ’ادا کی جانے والی بہت کم قیمت ہے۔‘
تمام پناہ گزینوں کو فی الحال کرکنز کے چھوٹے قریبی قصبے میں ٹھہرایا گیا ہے، جس میں 500 لوگوں کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے ایک نئےاستقبالیہ مرکز کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔
حکام ان افراد کو سرحد سے علاقے تک بسوں کے ذریعے لاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سائیکلیں وہیں پیچھے سرحد پر رہ جاتی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر سائیکلیں بچوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ سرحدی پولیس کے کسٹم آفس کی پیچھے کی دیوار کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں سائیکلوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ اور یہ صرف وہ سائیکلیں ہیں جنھیں گذشتہ دو روز کے دوران جمع کیا گیا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر بالکل نئی ہیں۔ ان کے زرد رنگ کے دستی حصوں پر زنگ کا ایک دھبہ تک نہیں ہے۔ کچھ سائیکلوں کے چوکَھٹوں پر اب تک حفاظتی پنیّاں لپٹی ہوئی ہیں جو غالباً انھیں تیار کرنے والی فیکٹری کی جانب سے ان سائیکلوں کو گرد سے بچانے کے لیے اُن کے گرد لپیٹی گئی تھیں۔
سورج کی بچی کھچی کرنیں سائیکلوں کے مڈگارڈوں سے ٹکرا کر منعکس ہو رہی تھیں۔ لیکن یہ سائیکلوں کا ایک قبرستان ہے۔ ہر دو یا تین روز بعد انھیں جمع کیا جاتا ہے اور پھر یہاں سے دُور لے جاکر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ جب تک کہ سرحدی پولیس کے سربراہ سٹائن ہانسن دو سائیکلوں کے دستوں کو اپنے خالی ہاتھوں میں پکڑ تے ہیں اور تھوڑی سی جدوجہد کے بعد انھیں انگریزی کے لفظ ’یو‘ کی شکل میں موڑ دیتے ہیں۔
اُن کے مطابق اُن کی خواہش ہے کہ ان سائیکلوں کو کسی کام کے لیے استعمال میں لایا جا سکے، لیکن ناروے کے قانونی معیار کے مطابق یہ سائیکلیں سڑک پر چلانے کے قابل نہیں ہیں۔
اپنی جسامت سے کئی گُنا چھوٹی سائیکلوں پر سوار لوگوں کو دیکھنا کافی مزاحیہ سا لگتا ہے۔
ایک بار وہ سُرخ اور سبز دھاریوں والی چوکی عبور کر لیں تو وہ قانونی طور پر روس سے باہر نکل جاتے ہیں۔ مزید چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود زرد رنگ کی رکاوٹ کو سائیکل کے ذریعے عبور کر کے وہ یورپ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اسی دوران میں نے ایک نوجوان جوڑے کو آتے ہوئے دیکھا جو سامان سے لدا پھندا تھا اور ان کے پاس ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ مجھے لگا کہ شاید کچھ لوگ اس ’پیدل نہ چلنے کے قانون‘ سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ اُس بچے کے ماں اور باپ دونوں پیدل تھے۔ غالباً اُن کے قیمتی مال واسباب کی وجہ سے انھیں یہ خصوصی استثنیٰ دیا گیا تھا۔
وہ دونوں اپنے ایک خالی ہاتھ سے سائیکل کو بھی دھکیلتے ہوئے لے جارہے تھے جو شاید قانون کی نظروں میں انھیں سائیکل سوار یا پیدل نہ چلنے والا بنا رہا ہے۔
درحقیقیت انھیں نہ تو اس بات کی پروا تھی کہ وہ قانون توڑ رہے ہیں اور نہ ہی اس بات کی کہ یہ سب دیکھنے میں کس قدر عجیب لگ رہا ہے۔
یہاں موجود حکام کی نظر صرف اس جانب ہے کہ ان کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
تاہم تارکینِ وطن کے لیے یہاں کے سرد اور نم قدرتی مناظر اس سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہ برفیلی سڑک ہمیشہ حتیٰ کہ موسمِ سرما میں بھی کُھلی رہتی ہے۔
دوسری طرف بحیرۂ روم کا راستہ بالکل بھی محفوظ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ طوفانوں کی لپیٹ میں بھی آ جاتا ہے۔

Share on Google Plus

0 comments: