سبز کرتے میں فقیری انداز اپنائے ہوئے ایک بزرگ خاتون تعزیے کے سامنے لوبان اور اگربتی کا دھواں دیتی ہیں جبکہ سامنے ایک الاؤ جل رہا ہے جس کے گرد کچھ بوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پیچھے واقع سبز دروازے پر مائی جنت کا تعزیہ تحریر ہے۔
یاد رہے کہ یہ تعزیے پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں بنائے جاتے ہیں۔
سبز گیٹ سے عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی، ایک اور منظر سامنے آتا ہے۔ دیوار پر مری ماتا مندر تحریر ہے جو سیٹھ موتن داس نے تلسی بائی کی یاد میں سنہ 1957 میں تعمیر کرایا تھا۔ مری ماتا کو درگا ماتا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
سبز لباس میں خاتون نے اپنا تعارف محمودہ مائی کے نام سے کرایا اور بتایا کہ جنت مائی ان کی والدہ تھیں اب یہ تعزیہ ان کی زیر نگرانی نکالا جاتا ہے۔
’یہ تعزیہ تو قیام پاکستان سے پہلے کا ہے، یہ مندر 1957 سے چل رہا اس وقت تو یہاں جھگی بنی ہوئی تھی۔ ہندو برادری کا کوئی تہوار ہوتا ہے تو مل بیٹھ کر کرلیتے ہیں۔ وہ بھی امام حسین کے اس تعزیے پر منت مانگنے آتے ہیں۔‘
محمودہ مائی کے شوہر عبداللہ موروں کے پروں کو ساتھ ملاکر باندھ رہے تھے جو تعزیے پر لگنے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’بابا یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے رہے ہیں ہندو، سکھ، پارسی سب۔‘
عبداللہ کے مطابق اس تعزیے کے ساتھ ان کی تیسری نسل ہے۔ ان کے پاس 90 سالہ پرانا لائسنس ہے جس کے ساتھ ہی انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پلاسٹک کی تھیلی میں لپیٹا ہوا اجازت نامہ دکھایا جو ضلعی انتطامیہ نے جاری کیا تھا اور ساتھ میں ضابط اخلاق بھی موجود تھا۔
دس محرم کے بعد تعزیے کو مری ماتا مندر کے احاطے کے ایک کونے میں رکھ دیا جاتا ہے، جبکہ سامنے واقع واحد کمرے میں مورتیاں موجود ہیں جہاں ہندو برداری کے لوگ تہوار کے موقعے پر پوجا کے لیے آتے ہیں۔ آٹھ محرم کی شب اس کو تالا لگا ہوا تھا۔
عبداللہ نے بتایا کہ تعزیے کے نیچے چراغ جلتا رہتا ہے اس کو بجھایا نہیں جاتا صرف لوبان دانی کو عاشورہ کے دن ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ ان کا ہندو برادری سے تہوار یا پوجا پر کوئی تکرار نہیں، وہ اپنا کام کرتے ہیں ہم اپنا۔ ایک طرف مندر میں تو دوسری طرف تعزیے پر دیا جلایا جاتا ہے۔
جنت مائی کا تعزیہ نو محرم کی شب نکالا جاتا ہے جو صدر میں واقع امام بارگاہ پہنچتا ہے اور فجر تک وہاں ہی رہتا ہے بعد میں دوبارہ اس کو اپنی منزل پر لایا جاتا ہے اور شام کو نیٹی جیٹ پل پر جاکر لوبان دانی کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔
تعزیے کے باعث مندر کی حفاظت
ایودھیا میں سنہ 1992 میں بابری مسجد پر شیو سینا کے حملے کا خمیازہ مقامی ہندو آبادی کو بھگتنا پڑا تھا، ان ہی دنوں کراچی میں مندروں پر حملے کیے گئے اور مورتیوں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔
محمد عظیم نے بتایا کہ ایک مشتعل ہجوم اس مندر کے باہر بھی پہنچ گیا تھا لیکن پڑوسیوں نے انھیں سمجھایا کہ یہ مندر نہیں امام بارگاہ ہے، جس کے بعد یہ لوگ آگے نکل گئے ورنہ یہاں بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل مراٹھی آبادی کے اس علاقے میں کئی مندر اور دھرم شالا موجود تھے ، جن کی عمارتوں پر بعد میں قبضہ ہوگیا۔ موجودہ وقت ان مندروں کے آثار بچے ہیں جن کے اندر گیراج اور دکانیں بنادی گئی ہیں۔
چند سال پرانے ایک دستاویز کے مطابق مہاراشٹر پنچایت نے بابو بھائی کو مائی جنت بی بی کا تعزیہ مندر کے کمپاؤنڈ میں رکھنے کی اجازت دی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ یہ تعزیہ گذشتہ 30 برسوں سے یہاں رکھا جارہا ہے اور اس کی اجازت ان کے بزرگوں نے دی تھی۔
اس دستاویز میں تحریر ہے کہ اس تعزیے کو ان کی برداری کے لوگ مانتے ہیں اس لیے یہ کمپاؤنڈ میں رکھا جاسکتا ہے لیکن بوقت ضرور یہ جگہ خالی کرنا ہوگی۔
اس کے برعکس موجودہ شری مہاراشٹر پنچایت اس کو قبضہ قرار دیتی ہے، پنچائت کے رہنما وشال راجپوت نے کمشنر کراچی کو ایک درخواست بھی تحریر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مری ماتا مندر 286 سکوائر یارڈ پر مشتمل تھا جو اب 50 یارڈ تک محدود ہوگیا ہے، بابری مسجد واقعے کے بعد اس کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔
وشال راجپوت کا کہنا ہے کہ ان کی برداری کو پوجا کرنے نہیں دی جاتی اور ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تاہم محمودہ مائی کے شوہر عبداللہ اس کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مندر میں اپنی اگربتی اور چراغ جلاتے ہیں اور ہم باہر اپنا دیا جلاتے ہیں کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس عمارت کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے۔
محمودہ مائی کے ساتھ ان کا شوہر ، بیٹی، نواسیاں اور داماد بھی موجود تھے جو محرم کے دنوں میں مندر کے احاطے میں ہی قیام کرتے ہیں۔ محمودہ کا کہنا تھا کہ تعزیے کی روایت ان کی آنے والی نسلوں میں بھی جاری رہے گی، ان کا اشارہ اپنی بیٹی کی طرف تھا۔
0 comments: