پاکستان سے آیا رام لیلا کا اردو سکرپٹ


بھارتی دارالحکومت دہلی سے قریب فریدآباد میں ایک رام لیلا ایسی بھی ہے جہاں آج بھی آپ کو لخت جگر اور سنگ دل جیسے الفاظ سننے کو ملیں گے۔
رامائن رام اور سیتا کی قربانی کی ہزاروں سال پرانی کہانی ہے جسے ہندو مذہب میں انتہائی مقدس مقام حاصل ہے۔ ہر سال دسہرے کے موقع پر جگہ جگہ رامائن کو ایک ڈرامے کی شکل میں سٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔ اصل کہانی تو سنسکرت میں لکھی گئی تھی لیکن وقت کے ساتھ اس کی زبان بدلتی رہی۔
لیکن فریدآباد کی وجے رام لیلا کمیٹی کے متظمین نے اس سکرپٹ کو نہیں ترک کیا جو ان کے بزرگ تقسیم کے وقت پاکستانی پنجاب سے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔
کمیٹی کے سربراہ وشو بندھو شرما منجھے ہوئِے موسیقار ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’ہمارے بزرگ جب تقسیم ہند کے بعد پاکستانی پنجاب سے یہاں آئے تو اردو زبان کا یہ سکرپٹ اپنے ساتھ لائے تھے ۔۔۔ تب سے ہم نے اس میں معمولی ترامیم کی ہیں لیکن بنیاد وہی ہے ۔۔۔ ہم اس روایت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘
مشکل اردو کی جگہ اب آسان ہندوستانی نے لینا شروع کردی ہے، لیکن پوری طرح نہیں۔ رام لیلا کے اداکار کہتے ہیں کہ ’شروع میں تو ہمیں کچھ دشواری ہوئی تھی، لیکن اب نہیں، ہم نے اپنے بزرگوں سے زبان سیکھی اور اب اردو کے الفاظ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
اس رام لیلا میں اردو کے استعمال کی کہانی پرانی بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ وشو بندھو شرما کہتے ہیں کہ زبان سب کی سمجھ میں آئے اس کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
’موت کا طالب ہوں میں، میری لبوں پے جان ہے، دو گھڑی کا یہ مسافر آپ کا مہمان ہے ۔۔۔ تو اس میں ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی، ہماری کوشش ہے کہ یہ روایت زندہ رہے اور اس سکرپٹ میں زیادہ تبدیلی نہ ہو۔‘
نئی نسل اردو لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتی، لیکن اپنی رام لیلا کی منفرد شناخت قائم رکھنے کے لیے منتظمین کمر بستہ ہیں۔
فرید آباد کے سابق میئر اشوک اروڑا ان پرانے لوگوں میں شامل ہیں جن بزرگوں نے پاکستان سے آنے کے بعد اردو میں رام لیلا شروع کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اردو بہت میٹھی زبان ہے، لگتی بہت مشکل ہے لیکن ہے بہت آسان۔‘
اور اب وشو بندھو شرما اور ان کے ساتھی اپنی اس روایت کو قائم رکھنے کے لیے نئی نسل کو اردو اور سنسکرت کی تعلیم دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ یہاں ایسے عالم لائیں جو مقامی لوگوں کو اردو اور سنسکرت کی تعلیم دیں، یہ دونوں زبانیں ہندوستان کو جوڑ کر رکھتی ہیں۔‘
رام لیلا میں آج رام کے بن باس کا دن ہے۔ آج تنازع اس بات پر ہے کہ ایودھیا کا تخت راجا دشرتھ کے سب سے بڑے بیٹے رام کو ملے، یا چھوٹے سوتیلے بھائی بھرت کو۔ یہ رام اور سیتا کی قربانی کی کہانی ہے، وہ اپنی سوتیلی ماں کی خواہش پوری کرنے کے لیے چودہ سال کا بن باس اختیار کر لیتے ہیں۔ بھائی لکشمن اور اہلیہ سیتا ساتھ جانے کے لیے بضد ہیں، شاہی محل میں کہرام مچا ہے۔
رام آخرکار بن باس کے لیے چلے جاتے ہیں۔

Share on Google Plus

0 comments: